Skip to main content

ایم کیو ایم کے تلخ حقائق


الطاف حسین اور ان کے حواری انتہائی بے غیرت ہیں۔۔۔30 سال تک مہاجروں کے نام پر پیدا گیری۔۔۔۔۔مال خوری کرتے رہے۔۔۔۔۔۔۔کنگلے۔۔۔۔۔فقرے۔۔۔۔۔جن کے پاس کھانے کو کچھ نہیں تھا۔۔۔۔۔دو آدمیوں کو چائے پلانے کے پیسے نہیں تھے۔۔۔۔مہاجروں کا سودا کر کے آج روساء میں شمار ہوتے ہیں۔۔۔


       میں 8 سے زیادہ گھر ہیں UAE  عشرت العباد کے

کنگلا۔۔۔فقرا سلیم شہزاد اسلامیہ کالج کے زمانے میں اسٹیج پر ڈانس کرنے والا۔۔۔۔۔۔۔دبئی میں علیشان محل میں  کر رہتا تھا۔۔۔۔اور کاروں کے بہت بڑے شو روم کا مالک تھا۔۔۔۔۔۔۔۔


اردو کالج کا پھٹیچر بابر غوری جن کے پاس دو آدمیوں کو چائے پلانے کے پیسے نہیں تھے آج کھرب پتی ہیں۔۔۔امریکا۔۔۔۔دوبئی۔۔۔دنیا بھر میں جائیدادوں کے مالک ہیں۔۔۔۔۔اپنی بیٹی کی امریکا میں اس دھوم دھام سے شادی کی کہ وہاں دھائیوں سے رہنے والے پاکستانی اور بھارتی بھی احساس کمتری کا شکار ہوگئے کہ وہ بھی اپنے بچوں کی اس عالیشان طریقے سے شادی نہیں کر سکتے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔



کنگلا فقرا کنور نوید جمیل جن کا سپلائی(جس کی تشریح نہیں کی جا سکتی ہے) کا کام تھا۔۔۔۔آج ارب پتی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔



فاروق ستار زمانہ طالبعلمی کا کنگلا۔۔۔۔۔فقرا۔۔۔۔۔آج کا کھرب پتی۔۔۔۔۔۔۔۔3 سرکاری بیویاں۔۔۔۔اور لاتعداد غیر سرکاری بیویاں رکھنے والا۔۔۔۔۔امریکا میں بیٹی کی پڑھائی کے لیئے 5 لاکھ روپے ماہانہ وہاں بھیجوانے والا۔۔۔۔۔۔جو پاکستان میں بڑے بڑے مال دار نہ کر سکے۔۔۔۔۔۔



اور کنگلا ٹچا خواجہ اظہار، چائے کی پیالیوں کے پیچھے چائے والے سے ذلیل ہونے والا خواجہ اظہار کچرا چننے والوں سے بھتہ لینے والا، قبضے کی زمینوں پر شادی ہال بنانے والا، گرین بیلٹ پر انار کلی اپارٹمنٹ بنانے والا خواجہ اظہار آج دبئی میں کاروبار اور جائدادوں کا مالک ہے، 



پاک کالونی کے نالے کے کنارے ساٹھ گز کے گھر میں رہنے والا بھنگی فیصل سبزواری آج وسیم اختر سے ٹھیکے حاصل کرکے ارب پتی بن چکا ہے اور وسیم اختر اور اس کا خاندان ڈی ایچ اے میں آئس، کوکین اور 
..چرس کی سپلائی کا کاروبار کرکے کھرب پتی بن چکا ہے



سب سے بڑھ کر الطاف کنگلا۔۔۔۔۔یونیورسٹی کے دور کا پھٹیچر۔۔۔۔آج کھربوں کا مالک۔۔۔۔۔لیکن ان سب بے غیرتوں نے مہاجروں کو کیا دیا۔۔۔۔۔آج کراچی کی تمام سرکاری پوسٹوں پر سندھی چھائے ہیں۔۔۔۔۔۔۔کن کٹا۔۔۔۔لنگڑا۔۔۔۔۔دادا۔۔۔۔اور ان جیسوں کے لیئے کراچی کو بند کر دینے والے۔۔۔اور پھر رحمان ملک کے بریف کیس پر شہر کھولنے والے۔۔۔۔ہڑتال ختم کرنے والوں نے کبھی مہاجروں کی پوسٹوں پر قبضہ کرنے والوں کو نہیں روکا۔۔۔۔۔۔کیونکہ ان پیدا گیروں۔۔۔۔۔۔مال خوروں کے مقاصد کچھ اور تھے۔۔۔۔۔۔۔ اسی لیئے کراچی کو صوبہ بنانے کا مطالبہ نہیں کیا۔۔۔۔۔کیوں۔۔۔۔۔؟

اور جب بھی ایسی بات ہوئی۔۔۔۔۔۔۔فاروق ستار اینڈ کمپنی و حواری قومی اسمبلی میں اور خواجہ اظہار الحق اینڈ کمپنی و حواری سندھ اسمبلی میں پہنچ جاتے اور وہاں قرارداد پیش کر دیتے کہ ہمیں صوبہ نہیں چاہیئے۔۔۔۔۔۔۔۔جبکہ انھیں مشرف دور میں اشرافیہ نے تشتری میں سجا کرصوبے کی پیشکش کی۔۔۔۔۔لیکن پیدا گیری۔۔۔۔۔۔۔مال خوری کی لت لگ جانے کی وجہ سے۔۔۔۔۔لالچ میں اس پیشکش کو ٹھکرا دیا۔۔۔۔۔۔۔؟جس کے گواہ مشرف اور ان کے ساتھی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔

ہاں اگر ہے اگر کوئی محروم ہے تو وہ ہے مہاجر قوم

منقول 
سبزپوش

Comments

Popular posts from this blog

مدینے کا شہید

پچھلے موسم میں ایک نامور پاکستانی دانشور بھارت گے، دورے کے اختتام پر ایک غیر سرکاری تنظیم نے دہلی میں اُن کےاعزاز میں ایک نشست کا اہتمام کیا جس میں پاکستانی دانشور کو ”خراجِ عقیدت” پیش کرنے کے لیے چوٹی کے بھارتی دانشور تشریف لائے، نشست کے آخر میں جب سوال وجواب کا سلسلہ شروع ہوا تو ایک ہندو نے اپنے معزز مہمان سے ایک عجیب سوال پوچھا،پوچھنے والے نے پوچھا۔” یہاں بھارت میں تو مسلمان مساجد میں نماز ادا کرتےہیں وہاں پاکستان میں کہاں پڑھتے ہیں؟” پاکستانی دانشور نے اِس سوال کو مذاق سمجھ کر فلک شگاف قہقہ لگایا لیکن جب اُنہیں محفل کی طرف سے کوئی خاص ردعمل موصول نہ ہوا تو اُنہوں نے کھسیانا ساہوکر سوالی کی طرف دیکھا ،ہندو دانشور کے چہرے پر سنجیدگی کے ڈھیرلگے تھے، پاکستانی دانشور نے بے چینی سے پہلو بدل کر جواب دیا۔ ”ظاہر ہے مسجدوں ہی میں پڑھتے ہیں۔” یہ جواب سن کر ہندو دانشور کھڑا ہوا،ایک نظر حاضرین پر ڈالی اور پھر مسکرا کر بولا۔” لیکن ہماری اطلاعات کے مطابق تو پاکستانی مسجدوں میں نماز پڑھنے والوں کو گولی ماردی جاتی ہے۔” ہندو دانشور کا یہ تبصرہ پاکستانی دانشور کو سکڈ میزائل کی طرح لگا اُس کا ماتھا ...

Karachi – the city where your ‘mochi’ can also mend your soul

The 42-year-old Khan took over his father’s mochi business after the latter retired four years ago. PHOTO: SARAH FAZLI Karachi is home to the most diverse of populations across Pakistan. Muslims, non-Muslims, Shia, Sunni, Muhajir, Balochi, Sindhi, Pashtun, Kashmiri, and also many other minority groups; many a people have found home here. Some of them love Karachi, others hate it. But Karachi has embraced them all – giving them the freedom to be themselves. Some folks weave dreams during the day. Some have adopted a nocturnal lifestyle and work during the night. Some read Jane Austen, while some unfalteringly quote  Faiz Ahmad Faiz . Some revere and find solace in its shrines. And yet, others destroy the very sanctity of those shrines. Some try to restore its glory, while others try to slaughter this goose to steal all its golden eggs. All of this happens at once, and this diversity is what makes Karachi both beautiful and painful. Vibrant and colourful, yet...

From spotlight to backstage: the MMA’s decline into obscurity

At best, the alliance can only hope for marginal gains in the 2018 elections. After almost a decade, the Muttahida Majlis-i-Amal (MMA), which emerged as the third-biggest political force in the 2002 general elections, is back as a five-member religio-political alliance to contest the polls in 2018, comprising the Jamiat Ulema-i-Islam-Fazl (JUI-F), Jamaat-i- Islami (JI), Jamiat Ahle Hadith and the Islami Tehreek (IT). It was back in early 2000, after the toppling of Nawaz Sharif in October 1999, that the General Pervez Musharraf-led military government, which had vowed to never allow the return of the exiled leadership of the Pakistan People’s Party and the Pakistan Muslim League-Nawaz (PML-N), was desperate to find an alternative political force. The JI was on good terms with the military government. Then-JI chief, the late Qazi Hussain Ahmed, even went on a tour of the United States, where he spoke to think-tanks in a bid to portray his image as a mode...