Skip to main content

پشتون کارڈ بچانے کی آخری کوشش .... !



ء47 میں افغانستان نے اقوام متحدہ میں پاکستان کے خلاف ووٹ دیا۔ 

ء 47 میں ہی افغان ایلچی نجیب اللہ نے نوزائیدہ مسلمان ریاست پاکستان کو فاٹا سے دستبردار ہونے اور بصورت دیگر جنگ کرنے کی دھمکی دی۔ 

ء48  میں ایک دفعہ پھر پاکستان کو یو این او کا رکن بنانے کی قرار داد پیش کی گئ تو افغانستان نے پھر اس کی مخالفت کی۔ 

ء48 میں افغانستان میں پاکستان کے خلاف  پرنس عبدلکریم بلوچ کے ٹریننگ کمیپ بنے۔ 

ء49 میں افغان لویا جرگہ بلا کر پاکستان کے وجود کا انکار کیا گیا۔ 

ء 49 میں ایک افغان مرزا علی خان جو پہلے خان عبدالغفار خان کے ساتھ دیکھا جاتا تھا اور پھر کچھ عرصے کے لئے زیر زمین چلا گیا تھا ، اچانک نمودار ھوا اور اس نے پاکستان کے خلاف مسلح کارروائیاں شروع کر دیں ، اس کی کاروائیاں وزیرستان سے شروع ھو کر کوھاٹ تک تھیں وہ چن چن کر ان عمائدین کو ٹارگٹ کرتا تھا جنہوں نے ریفرنڈم میں پاکستان کے حق میں رائے عامہ ہموار کی تھی۔ 

ء49 میں افغانستان نے اپنی پوری فورس اور لوکل ملیشیا کے ساتھ چمن کی طرف سے پاکستان پر بھرپور حملہ کیا۔ 

ء50 میں افغانستان نے انڈیا کے ساتھ دوستی کا معاہدہ کیا جس کا ایک نقاطی ایجنڈہ تھا کہ پاکستان کو کسی بھی طرح گھیر کر ختم کرنا ہے۔ 

ء55 میں سردار داؤود وغیرہ نے پاکستان کے بارڈر پر بہت بڑے بڑے کھمبے لگائے جن پر اسپیکر لگا کر پاکستان کے خلاف پروپیگنڈہ کیا جاتا تھا۔ 

ء60 میں افغانوں نے ایک قبائیلی لشکر ترتیب دے کر باجوڑ ایجنسی پر حملہ کیا۔ 

ء60 میں ہی افغانستان میں پاکستان کے خلاف شیر محمد مری کے ٹریننگ کیمپ بنے۔ 

ء70 میں اے این پی والے ناراض ہوئے ان کے اور بلوچوں کے ٹریننگ کیمپس بنے اجمل خٹک اور افراسیاب خٹک بھی ان کیمپس کا حصہ تھے۔ 

ء80 میں افغانستان میں پیپلز پارٹی کی الذولفقار نامی دہشت گرد تنظیم کے ٹریننگ کیمپس بنے۔ 

ء2002 سے تاحال افغانستان میں پاکستان کے خلاف ٹی ٹی پی، داعش، بی ایل اے اور جماعت الاحرار وغیرہ کے ٹریننگ کیمپس چلائے جا رہے ہیں۔ جبکہ اسی دوران افغانستان چمن، تورخم اور کرم ایجنسی پر تین فوجی حملے بھی کر چکا ہے۔ 

ء2018 میں اچانک اٹھنے والی پاکستان مخالف تحریک " پشتون تحفظ موومنٹ ( پی ٹی ایم ) کا اصل مرکز، کمانڈ اور کنٹرول بھی افغانستان میں ہی ہے۔ تاہم یہ ٹی ٹی پی کی نسبت زیادہ خطرناک تحریک اس لیے ہے کہ اس کو لبرل ازم کے جھنڈے تلے لانچ کیا گیا ہے جس کی وجہ سے امریکہ اور برطانیہ جیسے ممالک باآسانی اس کی سپورٹ کر سکتے ہیں۔ 

افغانستان کو ہمیشہ یہ خوش فہمی رہی ہے کہ پاکستان کے پشتون افغانستان میں ضم ہونے کے لیے بے چین ہیں۔ اسی خوش فہمی میں پچھلے ستر سال سے پاکستان کے خلاف " پشتون قوم پرستی" پر مبنی تحریکوں کو سپورٹ کرتا  چلا آرہا ہے۔ 

افغان سرحد کے قریب قائم پشتونوں کے یہ علاقے سینکڑوں سال سے یعنی قیام پاکستان سے پہلے سے لاہور اور کراچی وغیرہ کے مقابلے میں پسماندہ رہے ہیں۔ 

یہاں کوئی سرحد قائم نہیں تھی جس کی وجہ سے افغانستان کے لیے کسی بھی شکل میں یہاں گھسنا بے حد آسان تھا۔ 

افغانیوں کی ایک بہت بڑی تعداد ان تمام علاقوں میں موجود ہے۔ 

لیکن دہشت گردوں کے خلاف پاک فوج کی جنگ نے سب کچھ بدل کر رکھ دیا۔ 

اس خطے میں پہلی بار پاک فوج اور آئی ایس آئی کی مستقل موجودگی نے یہاں قائم افغان اینٹلی جنس کے نیٹ ورکس توڑنے شروع کر دئیے۔

 افغانیوں کی واپسی کا عمل شروع کیا گیا۔ 

افغان سرحد پر باڑ لگا کر غیر قانونی آمدورفت کو تقریباً ناممکن بنایا جا رہا ہے۔ 

اور سب سے بڑھ کا ایک بڑی جنگ کے بعد فاٹا میں شروع ہونے والا تعمیر نو کا عمل آنے والے دنوں میں وزیرستان کو فاٹا کا اسلام آباد بنا سکتا ہے۔ 

نیز پاک فوج نے فاٹا اصلاحات کے عنوان سے فاٹا کے عوام کے درینہ مسائل کا حل پیش کیا ہے جس کو فلحال نواز حکومت نے نظر انداز کر دیا ہے۔ لیکن انہیں خدشہ ہے کہ اگلی حکومت عمران خان کی آئی تو وہ ان پر ضرور عمل درآمد کرائے گا اور فاٹا کو کے پی کے میں ضم کر دے گا۔ 

جس کے بعد اس خطے کی محرومیاں تقریباً ختم ہوجائینگی اور افغانستان " پشتون کارڈ " سے ہمیشہ کے لیے محروم ہوجائیگا۔ 

یہ وہ خطرہ ہے جس کو محسوس کرتے ہوئے " پشتون تحفظ موومنٹ " کو پوری طاقت سے لانچ کیا گیا ہے اور افغانستان پہلی بار اعلانیہ اور نہایت جارحانہ انداز میں اس کو سپورٹ کر رہا ہے۔ 

" پشتون تحفظ موومنٹ " یا پی ٹی ایم کی تحریک پشتونوں کو حقوق دلانے کی نہیں بلکہ ان کے حقوق سلب کرنے کی تحریک ہے۔ وہ ہر صورت فاٹا سے پاک فوج کا انخلاء چاہتی ہے، باڑ کی تعمیر روکنا چاہتی ہے، افغانوں کی واپسی روکنا چاہتی ہے، فاٹا کا کے پی کے میں انضمام روکنا چاہتی ہے اور فاٹا میں جاری تعمیر نو کے کام روکنا چاہتی ہے۔ 

یہ افغانستان کی " پشتون کارڈ " بچانے کی آخری کوشش ہوگی!

تحریر شاہدخان

Comments

  1. The coverage & importance western media has given to PTM is unbelievable. When you compare this with the coverage free media gave to the 60 + unarmed Palestinians killed in cold blood in one day in Gaza, the contrast becomes even more stark. For Pakistani nation which has already seen similar international media's support for MQM , TTP, BLA........PTM just seems like a sick joke !!! More like one desperate attempt to win the war lost in the mountains of Afghanistan in the Afghan refugee camps based in Pakistan.............

    ReplyDelete
  2. Overall good article but where were PTM when hardcore terrorists were killing their own people? They never raised their voice then. Now the situation has stabilized in these regions a "Movement" has started.This is very unfortunate

    ReplyDelete

Post a Comment

Popular posts from this blog

Karachi – the city where your ‘mochi’ can also mend your soul

The 42-year-old Khan took over his father’s mochi business after the latter retired four years ago. PHOTO: SARAH FAZLI Karachi is home to the most diverse of populations across Pakistan. Muslims, non-Muslims, Shia, Sunni, Muhajir, Balochi, Sindhi, Pashtun, Kashmiri, and also many other minority groups; many a people have found home here. Some of them love Karachi, others hate it. But Karachi has embraced them all – giving them the freedom to be themselves. Some folks weave dreams during the day. Some have adopted a nocturnal lifestyle and work during the night. Some read Jane Austen, while some unfalteringly quote  Faiz Ahmad Faiz . Some revere and find solace in its shrines. And yet, others destroy the very sanctity of those shrines. Some try to restore its glory, while others try to slaughter this goose to steal all its golden eggs. All of this happens at once, and this diversity is what makes Karachi both beautiful and painful. Vibrant and colourful, yet...

Farewell to our very own star on Earth, the extraordinary Stephen Hawking

Media Watchdog Farewell to our very own star on Earth, the extraordinary Stephen Hawking By  Salman Hameed   Published: March 15, 2018 65 SHARES   SHARE   TWEET   EMAIL At the age of 22, he was diagnosed with a rare motor neuron disease and was given only a couple of years to live. PHOTO: AFP “They’re named black holes because they are related to human fears of being destroyed or gobbled up. I don’t have fears of being thrown into them. I understand them. I feel in a sense that I am their master.” These are  the words  of Stephen Hawking who  passed away  on March 14 th  at the age of 76. He was not afraid of death. And why would he be? He was told, at the age of 22, that he was suffering from a rare motor neuron disease and was given only a couple of years to live. But nobody loved defying odds as much as Hawking did, and so instead, he lived another five decades and became one of the most celebrated ...

Notification issued for composition of new administrative divisions in Mohmand, Khyber

Over a month after landmark legislation was passed to merge the tribal districts with the settled areas, the provincial government on Thursday officially notified the administrative divisions and districts in the merged areas. A notification issued by the Khyber-Pakhtunkhwa Board of Revenue on Thursday changed the geographic composition of Peshawar division by adding two tribal districts including Mohmand and Khyber, previously part of the Federally Administered Tribal Areas (Fata), along with the addition of the Frontier Region Peshawar. The Peshawar division now comprises five districts including Peshawar, Charsadda, Nowshera, Mohmand and Khyber. The notification further states that the administrative divisions have been altered in pursuant to 25th Amendment Act regarding the merger of the erstwhile Fata areas in the province and in the exercise of the powers conferred as per section 6, Chapter-II of Land Revenue Act 1967. NA passes ‘historic’ Fata, K-P merge...