Skip to main content

(بھیڑیے کی فطرت سے وحشتیں نہیں جاتیں (بابا الف کے قلم سے


تھائی لینڈ پولیس کا کہنا ہے کہ انہوں نے بینکاک کے ریڈ لائٹ علاقے سے کراچی میں چارسال قبل لگنے والی آگ کے سلسلے میں مطلوب شخص عبدالرحمن عرف بھولا کو پاکستانی وارنٹ پر گرفتار کیا ہے۔ اس خبر سے آہوں کے جو شعلے وابستہ ہیںوہ 11 ستمبر 2012 کو کراچی بلدیہ ٹاﺅن کی گارمنٹ فیکٹری سے اُٹھے تھے۔ جس میں255کاریگر جل کر ہلاک ہوگئے تھے۔ چار برس گزر گئے ہیں ان کی روحیں آج بھی نوحہ کناں ہیں۔ یہ آگ پاکستان میں آتش زدگی کی تاریخ کا وہ اندوہناک سانحہ تھی جس کے ہر پہلو میں سفاکی کی ہولناک داستان درج ہے جب ایک محلے سے ایک ساتھ پچاس جنازے اُٹھے۔ وہ جو کراچی کے لوگوں کے واحد ہمدرد اور غمگسار بن کرآئے تھے، جن کی شکلیں انسانوں کی سی تھیں مگر دل بھیڑیوں جیسے۔ ان بھیڑیوں کا زور جب زوروں پر تھا ان کے اعلی عہدیداران نے فیکٹری کے مالکان سے بیس کروڑ بھتہ مانگا تھا۔ غربت کے باعث جن کا بخت پہلے ہی تیرہ و تار تھا، جن کے چراغوں کی مدھم لو میں زندگی کی ہر گلی، ہر قریہ ویرانی کا منظر تھامالکان کے انکار پر سزا ان کو دینے کا فیصلہ کیا گیا۔
روشنی محدود ہو جن کی خمار
ان چراغوں کو بجھاتے جائیے
گزرے ماہ وسال میں کراچی میں تشدد کا جو بازار گرم رہا، ایم کیو ایم نے اس شہر کو، اس شہر کے باسیوں کو جس بے دردی سے شکار کیا، ان مہذب، خوش لباس قاتلوں نے تعصب اور شقاوت کی دہلیز پر جس طرح خون بہایا، بلدیہ کا سانحہ ان میں شدید ترین تھا۔ بھولا جیسے درندوں کو یہ سبق پڑھا کراس شہر کے لوگوں پر چھوڑ دیا گیا۔ اک شکار کرنے پر دوسرا بھی ملتا ہے۔ اژدھے کے مذہب میں بے اماں مکینوں پر۔ آہنی تصرف کا حق ہمیشہ رہتا ہے۔
فیکٹری کے تہہ خانے میں گرم پانی میں کود کر جان دینے والوں کی لاشوں کی جو حالت تھی پتھر بھی انہیں دیکھیں تو نہ دیکھنے کی التجا کرنے لگیں۔ وہ مزدور مرد اور عورتیںجو انتہائی قلیل تنخواہ پر کام کر رہے تھے۔ پاکستان اور بنگلا دیش جیسے ممالک میںگارمنٹس کی صنعت میں سرمایہ کار اور ملٹی نیشنل کمپنیاں اس لیے سرمایہ کاری کرتی ہیںکہ یہاں کم ترین اجرت پر میسر آنے والے مزدوروں کا ہر طرح استحصال کرکے زیادہ سے زیادہ منافع کمایا جاسکتا ہے۔ چین کی نسبت پاکستان میں گارمنٹس فیکٹریوں میں کام کرنے والوں کی اجرت محض پندرہ فی صد ہے۔ سرکاری قوانین میں مزدوروں کی اجرت کچھ بھی طے ہو لیکن مزدور بہت معمولی اجرت پر کام کرنے پر مجبور ہیں۔ جس فیکٹری میں آتش زدگی ہوئی وہاں جلاکر مارے جانے والے اکثر مزدور تین ہزار روپے ماہانہ پر ملازم تھے یا پھر یو میہ اجرت اور ٹھیکیداری نظام کے تحت کام کر رہے تھے۔ اس روزبھی مزدور بڑی تعداد میں تہہ خانے میں کام کر رہے تھے۔ تہہ خانے سے باہر نکلنے کا ایک ہی راستہ تھا جسے آگ لگانے سے پہلے بھاری تالا لگا کر بند کردیا گیا تھا۔ چار برس پورے ہوگئے ہیں فیکٹری میں جل کر مرنے والوں سینکڑوں مزدوروں کے ہر روز سسک سسک کر مرنے والے پیارے آج بھی انصاف کے منتظر ہیں۔ فیکٹری سے اُٹھنے والا دھواں، آگ کے شعلے، ان سے آتی انسانی گوشت کے جلنے کی بو آج بھی سوالی ہے ایم کیو ایم کے ان درندوں سے حساب کون لے گا۔ وہ بیوائیں، وہ مائیں، بہنیں، بیٹیاں جن کے زخم آج بھی اس طورہرے ہیں کہ دیکھیں تو سمجھ نہیں آتی مرہم کہاں کہاں رکھیں، اس زمانے کی فریاد کس سے کریں۔
یارب رکھیں گے پنبہ مرہم کہاں کہاں
سوز دروں سے ہائے بدن داغ داغ ہے
ایم کیو ایم نے کراچی میںسیاست کے نام پرجو انسانیت سوز مظالم کیے ہیں وہ بھلائے نہیں جا سکتے اور نہ ہی بھلانے چاہیے۔ الطاف حسین کی باچھوں سے آج بھی بے گناہوں کے خون کے فوارے چھوٹ رہے ہیں۔ یہ درندہ اپنی طبعی موت مررہا ہے لیکن مرنے سے پہلے اسے انصاف کے کٹہرے میں ضرور لایا جانا چاہیے۔ وہی قتل وغارت کرنے والوں کا سربراہ ہے۔ قتل وغارت کرنے والے بھولا جیسے کرداروں اور ان کے سپرستوں کو اس طرح سزا دی جا ئے کہ وہ نشان عبرت بن جا ئیں۔
بلدیہ فیکٹری ہو یا ریجنٹ پلازہ جیسا کوئی شاندار ہوٹل پاکستان میں انسانی جان کے قیمتی ہونے اور اس کی حفاظت کا خیال کہیں نہیں پایا جاتا۔ مناسب حفاظتی انتظامات کی طرف توجہ نہیں دی جاتی۔ بلدیہ کی فیکٹری میں بھی آگ جیسے سانحات سے نمٹنے کا کوئی بندوبست نہیں تھا۔ اگرچہ چند روز پہلے ہی عالمی انسپکشن کے ادارے نے فیکٹری کو سیفٹی کے حوالے سے محفوظ قرار دیا تھا۔ یہی صورت حال ریجنٹ پلازہ میں تھی جہاں بیش ترلوگ دھوئیں کی وجہ سے دم گھٹنے سے جان سے گئے۔ بدھ کی شام پی آئی اے کے طیارے کے بارے میں بھی ایسی ہی خبریں گردش میںہیں جس میں معروف مبلغ، نعت خواں اور سماجی کارکن جنید جمشید سمیت 48افراد شہید ہوگئے۔ پی آئی اے کے اے ٹی آر طیارے کے بارے میں بھی یہی انکشاف ہوا ہے کی اس کا ایک انجن پہلے سے ہی خراب تھا۔ بلدیہ فیکٹری کی آگ اگرچہ بد ترین دہشت گردی تھی لیکن اگر فیکٹری میں ضروری حفاظتی انتظامات ہوتے تو جانی نقصان کم ہو سکتا تھا۔ المیہ یہ ہے کہ فیکٹری میں آتش زدگی کے باوجود اس علاقے میں سو سے زاید فیکٹریوں میں آج بھی حفاظتی انتظامات کی صورت حال خراب ہے۔
حادثے کی تیس ماہ بعد جاری ہونے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی رپورٹ میںبلدیہ فیکٹری کی آگ کو حادثاتی نہیں بلکہ منصوبہ بندی کے تحت شرانگیزی اور دہشت گردی کی کارروائی قرار دیا گیا تھا۔ بے حسی اور ظلم کی انتہا دیکھیے کہ معاملے کو آگے بڑھانے کی بجائے خاموشی سے تحقیقات کو داخل دفتر کر دیا گیا۔ تحقیقاتی رپورٹ کسی الماری میں پڑے پڑے گل سڑ جاتی لیکن14جولائی2015کو سندھ ہائی کورٹ نے قانون نافذکرنے والے اداروں سے جے آئی ٹی رپورٹ طلب کرکے معاملے کو ایک بار پھر زندہ کردیا۔ تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق متحدو قومی مومنٹ کے کارکن رحمن بھولا اور حماد صدیقی کی طرف سے فیکٹری مالکان سے بیس کروڑ روپے بھتا اور فیکٹری کی آمدنی میں حصہ دینے سے انکار پر آگ لگادی گئی۔2012میں اس حادثے کے رونما ہونے کے فوری بعد فیکٹری مالکان کی طرف سے دس لاکھ ڈالر کی امدادی رقم جاری کی گئی جسے نا کافی قرار دیا گیا۔ رواں سال ستمبر میںاس حادثے کے زخمیوں اور جاں بحق ہونے والوں کے لواحقین کے لیے51لاکھ ڈالر سے زاید زر تلافی کا ایک سمجھوتا طے پایا ہے۔ رحمن بھولا کی محض گرفتاری کافی نہیں ضروری ہے کہ اسے اور اس کے سر پرستوں کو عبرت کا نشان بنایا جائے۔ کراچی آپریشن کے بعد بڑی حد تک الطاف حسین کا زور ٹوٹ چکا ہے لیکن بقول سعود عثمانی یہ بھی حقیقت ہے۔ بھیڑیے کی فطرت سے وحشتیں نہیں جاتیں۔ زور ٹوٹ جاتا ہے عادتیں نہیں جاتیں۔ دانت جاتے رہنے سے خصلتیں نہیں جاتیں۔ تیندوے کی آنکھوں میں عمر پوری ہونے تک۔ زرد حرص رہتی ہے۔ سانپ کی طبیعت پر سم رسیدہ لوگوں کا کوئی غم نہیں ہوتا۔ سانپ کے لیے کوئی محترم نہیں ہوتا۔ کینچلی بدلنے سے زہر کم نہیں ہوتا۔


Comments

Popular posts from this blog

Karachi – the city where your ‘mochi’ can also mend your soul

The 42-year-old Khan took over his father’s mochi business after the latter retired four years ago. PHOTO: SARAH FAZLI Karachi is home to the most diverse of populations across Pakistan. Muslims, non-Muslims, Shia, Sunni, Muhajir, Balochi, Sindhi, Pashtun, Kashmiri, and also many other minority groups; many a people have found home here. Some of them love Karachi, others hate it. But Karachi has embraced them all – giving them the freedom to be themselves. Some folks weave dreams during the day. Some have adopted a nocturnal lifestyle and work during the night. Some read Jane Austen, while some unfalteringly quote  Faiz Ahmad Faiz . Some revere and find solace in its shrines. And yet, others destroy the very sanctity of those shrines. Some try to restore its glory, while others try to slaughter this goose to steal all its golden eggs. All of this happens at once, and this diversity is what makes Karachi both beautiful and painful. Vibrant and colourful, yet...

Farewell to our very own star on Earth, the extraordinary Stephen Hawking

Media Watchdog Farewell to our very own star on Earth, the extraordinary Stephen Hawking By  Salman Hameed   Published: March 15, 2018 65 SHARES   SHARE   TWEET   EMAIL At the age of 22, he was diagnosed with a rare motor neuron disease and was given only a couple of years to live. PHOTO: AFP “They’re named black holes because they are related to human fears of being destroyed or gobbled up. I don’t have fears of being thrown into them. I understand them. I feel in a sense that I am their master.” These are  the words  of Stephen Hawking who  passed away  on March 14 th  at the age of 76. He was not afraid of death. And why would he be? He was told, at the age of 22, that he was suffering from a rare motor neuron disease and was given only a couple of years to live. But nobody loved defying odds as much as Hawking did, and so instead, he lived another five decades and became one of the most celebrated ...

Notification issued for composition of new administrative divisions in Mohmand, Khyber

Over a month after landmark legislation was passed to merge the tribal districts with the settled areas, the provincial government on Thursday officially notified the administrative divisions and districts in the merged areas. A notification issued by the Khyber-Pakhtunkhwa Board of Revenue on Thursday changed the geographic composition of Peshawar division by adding two tribal districts including Mohmand and Khyber, previously part of the Federally Administered Tribal Areas (Fata), along with the addition of the Frontier Region Peshawar. The Peshawar division now comprises five districts including Peshawar, Charsadda, Nowshera, Mohmand and Khyber. The notification further states that the administrative divisions have been altered in pursuant to 25th Amendment Act regarding the merger of the erstwhile Fata areas in the province and in the exercise of the powers conferred as per section 6, Chapter-II of Land Revenue Act 1967. NA passes ‘historic’ Fata, K-P merge...