چونتیسواں یوم تاسییس ابھی منایا گیا۔ چونتیس سالوں میں وفاقی وزیر، صوبائی وزیر، سینیٹرز، 10 سال گورنر، میئر، قومی اسمبلی، صوبائی اسمبلی، وزیراعظم 90 میں حاضری کے بغیر نہیں بن سکتا، وزیر اعلیٰ کی سال میں 5 مرتبہ 90 اور 5 مرتبہ لندن حاضری ضروری، وزیر داخلہ کا ھر 15 دن میں لندن حاضری۔ کراچی بند، کراچی کھل، کیبل بند کیبل کھل، اینکر بند اینکر کھل . لیکن نعرہ یہ کہ. اختیار نہیں ھمارے پاس. نہ کھلا تو پانی نہ رھی تو بجلی نہ ملی تو تعلیم نلکے سوکھے، گلیاں اندھیری، علاقے کہ علاقے کچرے کا ڈھیر۔ کسی نے اندھیرے کے خلاف گھر سے گلی سے نکلنے کی کوشش بھی کی تو بقول فیض اللہ " سیکٹر کے ٹچے" پہنچ جاتے بھگانے۔ سرکاری اسکول کالج خالی اور ویران آدمجی جیسے کالج کو سیکٹر اور یونٹ کے لونڈوں نے ویران کردیا بچے صرف داخلہ لینے اور پھر ایڈمٹ کارڈ لینے کالج جاتےھیں۔ اب اچانک جب سہولت کاروں نے کچھ پابندیاں لگادیں، دھشت گردی کا ھارڈ وئیر نکال کر سیاست کا سافٹ وئیر لگایا تو یاد آیا کہ کراچی ایک شہر ھے جسکے مسائل ھیں جسکی ڈھائی کروڑ آبادی ھے اس میں جیتے جاگتے لوگ بستے ھیں ۔ اب اسکی بجلی اور پانی یاد آرھے ھیں۔ کراچی نے بہت لاشیں سمیٹیں، کراچی کو خون میں نہلانے والے آھستہ آھستہ اپنے انجام کو پہنچ رھے ھیں، 35000 سے زیادہ لوگوں کو قتل کرنے والے ھوں، بلدیہ فیکٹری میں معصوم لوگوں کو زندہ جلانے والے ھوں یا ھمارے شہر سے بھتہ ،لوٹ مار ڈکیتیوں اور قبضہ کی صورت میں اربوں روپے لوٹ کے لیجانے والے ھوں ھر ایک کا انجام سامنے انے والا ھے۔ کراچی کا ھر امیر "چریا مہاجر"چنچگی رکشہ اور ڈبلیو اٹھارہ کی کوچ سے لٹکتے ھوئے اپنے غریب مہاجر لیڈر کی چمکتی دمکتی لینڈ کروزر اور ویگو کو دیکھ رھا ھے۔ منقول
چونتیسواں یوم تاسییس ابھی منایا گیا۔ چونتیس سالوں میں وفاقی وزیر، صوبائی وزیر، سینیٹرز، 10 سال گورنر، میئر، قومی اسمبلی، صوبائی اسمبلی، وزیراعظم 90 میں حاضری کے بغیر نہیں بن سکتا، وزیر اعلیٰ کی سال میں 5 مرتبہ 90 اور 5 مرتبہ لندن حاضری ضروری، وزیر داخلہ کا ھر 15 دن میں لندن حاضری۔ کراچی بند، کراچی کھل، کیبل بند کیبل کھل، اینکر بند اینکر کھل . لیکن نعرہ یہ کہ. اختیار نہیں ھمارے پاس. نہ کھلا تو پانی نہ رھی تو بجلی نہ ملی تو تعلیم نلکے سوکھے، گلیاں اندھیری، علاقے کہ علاقے کچرے کا ڈھیر۔ کسی نے اندھیرے کے خلاف گھر سے گلی سے نکلنے کی کوشش بھی کی تو بقول فیض اللہ " سیکٹر کے ٹچے" پہنچ جاتے بھگانے۔ سرکاری اسکول کالج خالی اور ویران آدمجی جیسے کالج کو سیکٹر اور یونٹ کے لونڈوں نے ویران کردیا بچے صرف داخلہ لینے اور پھر ایڈمٹ کارڈ لینے کالج جاتےھیں۔ اب اچانک جب سہولت کاروں نے کچھ پابندیاں لگادیں، دھشت گردی کا ھارڈ وئیر نکال کر سیاست کا سافٹ وئیر لگایا تو یاد آیا کہ کراچی ایک شہر ھے جسکے مسائل ھیں جسکی ڈھائی کروڑ آبادی ھے اس میں جیتے جاگتے لوگ بستے ھیں ۔ اب اسکی بجلی اور پانی یاد آرھے ھیں۔ کراچی نے بہت لاشیں سمیٹیں، کراچی کو خون میں نہلانے والے آھستہ آھستہ اپنے انجام کو پہنچ رھے ھیں، 35000 سے زیادہ لوگوں کو قتل کرنے والے ھوں، بلدیہ فیکٹری میں معصوم لوگوں کو زندہ جلانے والے ھوں یا ھمارے شہر سے بھتہ ،لوٹ مار ڈکیتیوں اور قبضہ کی صورت میں اربوں روپے لوٹ کے لیجانے والے ھوں ھر ایک کا انجام سامنے انے والا ھے۔ کراچی کا ھر امیر "چریا مہاجر"چنچگی رکشہ اور ڈبلیو اٹھارہ کی کوچ سے لٹکتے ھوئے اپنے غریب مہاجر لیڈر کی چمکتی دمکتی لینڈ کروزر اور ویگو کو دیکھ رھا ھے۔ منقول
Comments
Post a Comment